تحریکِ عدم اعتماد: جہانگیر ترین گروپ کتنا اہم ہے اور کیا حکومت ’ناراض اراکین‘ کو واپس لا سکے گی؟


میڈیا نیوز

پاکستان کے شہر لاہور میں حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے پارٹی کے 'ناراض' اراکین سے رابطہ کر کے انھیں واپس لانے کی کوششوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ صوبہ پنجاب میں اس حکومت کی جانب سے اس کام کی ذمہ داری صوبائی وزیر مراد راس کو سونپی گئی ہے۔


گزشتہ ہفتے پنجاب کے وزیرِ سکول ایجوکیشن مراد راس نے جہانگیر ترین گروپ کے ارکان سے لاہور میں ملاقات کی اور ان کے مطالبات سنے تھے۔ مراد راس نے اپنی جماعت اور وزیرِاعظم کے ساتھ مشاورت کے بعد دوبارہ جہانگیر ترین گروپ کے اراکین سے ملاقات کا کہا تھا۔


جہانگیر ترین گروپ کے ممبر ایم پی اے طاہر رندھاوا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزرا کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں انھیں یقین دلایا گیا ہے کہ ان کے مطالبات کو سنجیدگی کے ساتھ سنا جائے گا اور ان پر عملدرآمد ہوگا۔


'ہم اپنے مائنس بزدار کے فارمولے پر اب بھی قائم ہیں اور ہم نے انھیں کہا ہے کہ وہ وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کو ہٹائیں پھر باقی معاملات طے ہوں گے۔'


طاہر رندھاوا نے بتایا کہ صوبائی وزیر مراد راس نے ملاقات کے دوران بتایا کہ 'انھیں وزیرِاعظم عمران خان نے مکمل اختیارات کے ساتھ بھیجا ہے اور وہ جہانگیر ترین گروپ کے مطالبات سن کر ان پر سنجیدگی سے عملدرآمد کی کوشش کروائیں گے۔ انھوں نے ہم سے کہا کہ آپ واپس آ جائیں۔'


یاد رہے کہ چند صوبائی وزرا سمیت پنجاب کی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بھی چند اراکین جہانگیر ترین کے گروپ میں شامل ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے باضابطہ طور پر پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کے ساتھ اختلافات کا اظہار کیا تھا۔


انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ موجودہ وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار کو ہٹایا جائے اس کے بعد ہی وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مزید بات چیت کریں گے۔


پنجاب کے وزیرِ سکول ایجوکیشن مراد راس نے پیر کے روز ایک بیان میں بتایا تھا کہ وہ 24 گھنٹے کے دوران ترین گروپ سے دوبارہ ملاقات کریں گے۔


ان کا کہنا تھا کہ ترین گروپ ممبران پاکستان تحریکِ انصاف کا اہم جزو ہیں اور ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔ 'اندرونی مسائل دیرینہ نہیں، جلد حل کر لیں گے۔'


تاہم منگل کے روز تو ان کی اعلان کردہ ملاقات نہیں ہو پائی۔


'مائنس بزدار پر قائم ہیں'


ترین گروپ کے ممبر طاہر رندھاوا نے بی بی سی کو بتایا کہ 'مراد راس صاحب سے ہمارا ٹیلیفون پر رابطہ ہے۔ ہم اپنے گروپ کے اندر مشاورت کر رہے ہیں اور پھر اس کے بعد ہی فیصلہ ہوگا کہ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔'


تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی 'مائنس بزدار' کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں۔


اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومتی وزرا نے انھیں عثمان بزدار کو بطور وزیرِاعلٰی ہٹانے کی یقین دہانی کروائی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 'ایک مرتبہ یہ تحریکِ عدم اعتماد والا معاملہ ہو جائے تو عثمان بزدار کو ہٹا دیا جائے گا۔'