سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد اورسیاسی عمل

میں عدالت کی کوئی دلچسپی نہیں،عدم اعتماد کی کارروائی آئین کے مطابق ہونی چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ پیر کو ہونے والی سماعت میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے وکلاء کے ذریعے حاضری یقینی بنائیں۔ سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد سے سندھ ہاؤس پر حملے کی رپورٹ بھی طلب کرلی۔
ہفتے کوچیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بار کی درخواست پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب،سپریم کورٹ بار نےعدالت سے رجوع کیا ہے،بار ایسوی ایشن چاہتی ہے کہ قانون پرعمل درآمد کرایا جائے،آپ بھی عدالت سے رجوع کرنا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے پر ریفرنس دائر کرنے کا  فیصلہ ہوا اوراس حوالے سے پیر تک صدارتی ریفرنس دائر کریں گے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ سپریم کورٹ بار امن و امان اور آرٹیکل 95 کی عمل درآمد چاہتی ہے،سپریم کورٹ بار لاءاینڈ آرڈر کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے،عدالت نے ازخود نوٹس نہیں لیا البتہ دائر درخواست کو سن رہے ہیں،چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ ایک ایسا واقعہ دیکھا جوآزادی اظہار رائےکےآئینی حق کےخلاف ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے میں تو کوئی دوسرا سوال نہیں ہے۔
  
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ حکومتی ارکان سندھ ہاؤس میں تھے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومتی ارکان کے سندھ ہاؤس میں ہونے سے سیاسی ماحول کو گرما دیا،اچانک سیاسی درجہ حرارت بڑھا اور یہ واقعہ ہوا،عوام پرامن احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ تمام سیاسی فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے، عدالت آرٹیکل 63 اے پر ابھی کوئی رائے نہیں دینا چاہتی،آرٹیکل 63 اے پرصدارتی ریفرنس پرسماعت کریں گے

 اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو بتایا کہ صدارتی ریفرنس کے معاملے پر سپریم کورٹ بار کی درخواست کا تعلق نہیں ہے۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دونوں معاملات کا آپس میں لنک موجود ہے،سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر کی ذمہ داریوں کی بات کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ عدالت کو پارلیمنٹیرین اور سپریم کورٹ بار کا بہت احترام ہے۔
سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیا، تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس بذریعہ سیکرٹری جنرل جاری کئے گئے۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ تحریک عدم اعتماد اورسیاسی عمل میں عدالت کی کوئی دلچسپی نہیں،عدم اعتماد کی کارروائی آئین کے مطابق ہونی چاہئے،سندھ ہاؤس پر حملے کے علاوہ عوامی مفاد میں کارروائی کیلئے عدالت کے پاس کوئی مواد نہیں۔
سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو قانون کے مطابق اقدامات کا حکم دیا اور کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے وکلاء کے ذریعے حاضری یقینی بنائیں۔ سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد سےسندھ ہاؤس پرحملے کی رپورٹ بھی طلب کرلی۔ عدالت نے مزید سماعت پیر کی دوپہر 1 بجے تک ملتوی کردی۔
جن جماعتوں کو نوٹس جاری کئے گئے ان میں تحریک انصاف، جے یو آئی(ف)، مسلم لیگ (ن)،پاکستان پیپلز پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بار کی درخواست سماعت کے لیے آج مقرر کی تھی۔عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کئے تھے۔اس سے قبل یہ سماعت پیر کو ہونا تھی۔
رجسٹرارسپریم کورٹ کی جانب سے تردید کی گئی کہ سندھ ہاؤس پر جمعہ کو حملےکا ازخودنوٹس نہیں لیا گیا ہےاور سپریم کورٹ بار کی جو درخواست ہے اس پر ہی سماعت ہوگی۔ تاہم اس سماعت میں سندھ ہاؤس پرحملےپر بھی بات ہوسکتی ہے۔
 سترہ مارچ کو سپریم کورٹ بار نےعدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں میں تصادم روکنے کی آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ بار کی درخواستدرخواست میں وزیراعظم پاکستان عمران خان،اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو بھی فریق بنایا گیا۔درخواست میں وزارت داخلہ،دفاع،آئی جی اسلام آباد،ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو بھی فریق بنایا گیا۔
سپریم کورٹ میں درخواست آئینی آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدم اعتماد کا عمل پرامن انداز سے مکمل ہو، عدم اعتماد آرٹیکل 95 کے تحت کسی بھی وزیراعظم کو ہٹانے کا آئینی راستہ ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ سیاسی بیانات سےعدم اعتماد کے روز فریقین کے درمیان تصادم  کا خطرہ ہے، سپریم کورٹ تمام اسٹیک ہولڈرز کوعدم اعتماد کا عمل پرامن انداز سے مکمل ہونے کا حکم دے۔
یہ بھی موقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ تمام ریاستی حکام کوآئینی حدود میں رہنے اور اسپیکر قومی اسمبلی کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کا حکم دے۔
درخواست میں وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی۔